آٹھوں پہر لہو میں نہایا کرے کوئی
یوں بھی نہ اپنے درد کو دریا کرے کوئی
فضیل جعفری
آتش فشاں زباں ہی نہیں تھی بدن بھی تھا
دریا جو منجمد ہے کبھی موجزن بھی تھا
فضیل جعفری
اخلاق و شرافت کا اندھیرا ہے وہ گھر میں
جلتے نہیں معصوم گناہوں کے دیے بھی
فضیل جعفری
بھولے بسرے ہوئے غم پھر ابھر آتے ہیں کئی
آئینہ دیکھیں تو چہرے نظر آتے ہیں کئی
فضیل جعفری
بوسے بیوی کے ہنسی بچوں کی آنکھیں ماں کی
قید خانے میں گرفتار سمجھئے ہم کو
فضیل جعفری
چمکتے چاند سے چہروں کے منظر سے نکل آئے
خدا حافظ کہا بوسہ لیا گھر سے نکل آئے
فضیل جعفری
دشت تنہائی میں جینے کا سلیقہ سیکھئے
یہ شکستہ بام و در بھی ہم سفر ہو جائیں گے
فضیل جعفری
دل یوں تو گاہ گاہ سلگتا ہے آج بھی
منظر مگر وہ رقص شرر کا نہیں رہا
فضیل جعفری
احساس جرم جان کا دشمن ہے جعفریؔ
ہے جسم تار تار سزا کے بغیر بھی
فضیل جعفری