EN हिंदी
فضیل جعفری شیاری | شیح شیری

فضیل جعفری شیر

23 شیر

ہر آدمی میں تھے دو چار آدمی پنہاں
کسی کو ڈھونڈنے نکلا کوئی ملا مجھ کو

فضیل جعفری




آٹھوں پہر لہو میں نہایا کرے کوئی
یوں بھی نہ اپنے درد کو دریا کرے کوئی

فضیل جعفری




احساس جرم جان کا دشمن ہے جعفریؔ
ہے جسم تار تار سزا کے بغیر بھی

فضیل جعفری




دل یوں تو گاہ گاہ سلگتا ہے آج بھی
منظر مگر وہ رقص شرر کا نہیں رہا

فضیل جعفری




دشت تنہائی میں جینے کا سلیقہ سیکھئے
یہ شکستہ بام و در بھی ہم سفر ہو جائیں گے

فضیل جعفری




چمکتے چاند سے چہروں کے منظر سے نکل آئے
خدا حافظ کہا بوسہ لیا گھر سے نکل آئے

فضیل جعفری




بوسے بیوی کے ہنسی بچوں کی آنکھیں ماں کی
قید خانے میں گرفتار سمجھئے ہم کو

فضیل جعفری




بھولے بسرے ہوئے غم پھر ابھر آتے ہیں کئی
آئینہ دیکھیں تو چہرے نظر آتے ہیں کئی

فضیل جعفری




اخلاق و شرافت کا اندھیرا ہے وہ گھر میں
جلتے نہیں معصوم گناہوں کے دیے بھی

فضیل جعفری