EN हिंदी
گر بھی جائیں تو نہ مسمار سمجھئے ہم کو | شیح شیری
gir bhi jaen to na mismar samajhiye hum ko

غزل

گر بھی جائیں تو نہ مسمار سمجھئے ہم کو

فضیل جعفری

;

گر بھی جائیں تو نہ مسمار سمجھئے ہم کو
روشنی سی پس دیوار سمجھئے ہم کو

ہم بھی آخر ہیں یکے از متوسط طبقہ
موت کے بعد بھی بیمار سمجھئے ہم کو

بوسے بیوی کے ہنسی بچوں کی آنکھیں ماں کی
قید خانے میں گرفتار سمجھئے ہم کو

وقت معصوم و جری روحوں کے درپئے ہے فضیلؔ
زندہ جب تک ہیں سر دار سمجھئے ہم کو