خود لفظ پس لفظ کبھی دیکھ سکے بھی
کاغذ کی یہ دیوار کسی طرح گرے بھی
کس درد سے روشن ہے سیہ خانۂ ہستی
سورج نظر آتا ہے ہمیں رات گئے بھی
وہ ہم کہ غرور صف اعدا شکنی تھے
آخر سر بازار ہوئے خوار بکے بھی
بہتی ہیں رگ و پے میں دو آبے کی ہوائیں
اک اور سمندر ہے سمندر سے پرے بھی
اخلاق و شرافت کا اندھیرا ہے وہ گھر میں
جلتے نہیں معصوم گناہوں کے دیے بھی
غزل
خود لفظ پس لفظ کبھی دیکھ سکے بھی
فضیل جعفری