EN हिंदी
صبح تک ہم رات کا زاد سفر ہو جائیں گے | شیح شیری
subh tak hum raat ka zad-e-safar ho jaenge

غزل

صبح تک ہم رات کا زاد سفر ہو جائیں گے

فضیل جعفری

;

صبح تک ہم رات کا زاد سفر ہو جائیں گے
تجھ سے ہم آغوش ہو کر منتشر ہو جائیں گے

دھوپ صحرا تن برہنہ خواہشیں یادوں کے کھیت
شام آتے ہی غبار رہ گزار ہو جائیں گے

دشت تنہائی میں جینے کا سلیقہ سیکھئے
یہ شکستہ بام و در بھی ہم سفر ہو جائیں گے

شورش دنیا کو آہستہ روی کا حکم ہو
نذر خیر و شر ترے شوریدہ سر ہو جائیں گے

یہ جو ہیں دو چار شرفائے اودھ اختر شناس
کچھ دنوں میں یہ بھی اوراق دگر ہو جائیں گے