صبح تک ہم رات کا زاد سفر ہو جائیں گے
تجھ سے ہم آغوش ہو کر منتشر ہو جائیں گے
دھوپ صحرا تن برہنہ خواہشیں یادوں کے کھیت
شام آتے ہی غبار رہ گزار ہو جائیں گے
دشت تنہائی میں جینے کا سلیقہ سیکھئے
یہ شکستہ بام و در بھی ہم سفر ہو جائیں گے
شورش دنیا کو آہستہ روی کا حکم ہو
نذر خیر و شر ترے شوریدہ سر ہو جائیں گے
یہ جو ہیں دو چار شرفائے اودھ اختر شناس
کچھ دنوں میں یہ بھی اوراق دگر ہو جائیں گے
غزل
صبح تک ہم رات کا زاد سفر ہو جائیں گے
فضیل جعفری