رشتہ جگر کا خون جگر سے نہیں رہا
موسم طواف کوچہ و در کا نہیں رہا
دل یوں تو گاہ گاہ سلگتا ہے آج بھی
منظر مگر وہ رقص شرر کا نہیں رہا
مجبور ہو کے جھکنے لگا ہے یہاں وہاں
یہ سر بھی تیرے خاک بہ سر کا نہیں رہا
گھر کا تو خیر ذکر ہی کیا ہے کہ ذہن میں
نقشہ بھی اس بھرے پرے گھر کا نہیں رہا
باندھا کسی نے رخت سفر اس طرح کہ اب
دل کو فضیلؔ شوق سفر کا نہیں رہا
غزل
رشتہ جگر کا خون جگر سے نہیں رہا
فضیل جعفری