EN हिंदी
آٹھوں پہر لہو میں نہایا کرے کوئی | شیح شیری
aaThon pahr lahu mein nahaya kare koi

غزل

آٹھوں پہر لہو میں نہایا کرے کوئی

فضیل جعفری

;

آٹھوں پہر لہو میں نہایا کرے کوئی
یوں بھی نہ اپنے درد کو دریا کرے کوئی

اڑ جائے گی فصیل شب جبر توڑ کر
قیدی نہیں ہوا جسے اندھا کرے کوئی

دل تختۂ گلاب بھی آتش فشاں بھی ہے
اس رہگزر سے روز نہ گزرا کرے کوئی

اوڑھی ہے اس نے سرد خموشی مثال سنگ
لفظوں کے آبشار گرایا کرے کوئی

پانی کی طرح پھیل گئی گھر میں شام ہجر
تا صبح ڈوب ڈوب کے ابھرا کرے کوئی

میں ہوں کسی صدا کے شکنجے میں جعفریؔ
میرا پتا ہواؤں سے پوچھا کرے کوئی