آ مجھے چھو کے ہرا رنگ بچھا دے مجھ پر
میں بھی اک شاخ سی رکھتا ہوں شجر کرنے کو
فرحت احساس
آنکھوں کی پیالیوں میں بارش مچی ہوئی ہے
صحرا میں کوئی منظر شاداب آ رہا ہے
فرحت احساس
آنکھ بھر دیکھ لو یہ ویرانہ
آج کل میں یہ شہر ہوتا ہے
فرحت احساس
اب دیکھتا ہوں میں تو وہ اسباب ہی نہیں
لگتا ہے راستے میں کہیں کھل گیا بدن
فرحت احساس
اے خدا میری رگوں میں دوڑ جا
شاخ دل پر اک ہری پتی نکال
فرحت احساس
اے صدف سن تجھے پھر یاد دلا دیتا ہوں
میں نے اک چیز تجھے دی تھی گہر کرنے کو
فرحت احساس
عورتیں کام پہ نکلی تھیں بدن گھر رکھ کر
جسم خالی جو نظر آئے تو مرد آ بیٹھے
فرحت احساس
بڑا وسیع ہے اس کے جمال کا منظر
وہ آئینے میں تو بس مختصر سا رہتا ہے
فرحت احساس
بچا کے لائیں کسی بھی یتیم بچے کو
اور اس کے ہاتھ سے تخلیق کائنات کریں
فرحت احساس