ایک بار اس نے بلایا تھا تو مصروف تھا میں
جیتے جی پھر کبھی باری ہی نہیں آئی مری
فرحت احساس
دنیا سے کہو جو اسے کرنا ہے وہ کر لے
اب دل میں مرے وہ علیٰ الاعلان رہے گا
فرحت احساس
دو الگ لفظ نہیں ہجر و وصال
ایک میں ایک کی گویائی ہے
فرحت احساس
دھوپ بولی کہ میں آبائی وطن ہوں تیرا
میں نے پھر سایۂ دیوار کو زحمت نہیں دی
فرحت احساس
دراصل اس جہاں کو ضرورت نہیں مری
ہر چند اس جہاں کے لیے ناگزیر میں
فرحت احساس
چاند بھی حیران دریا بھی پریشانی میں ہے
عکس کس کا ہے کہ اتنی روشنی پانی میں ہے
فرحت احساس
بے بدن روح بنے پھرتے رہوگے کب تک
جاؤ چپکے سے کسی جسم میں داخل ہو جاؤ
فرحت احساس
بس ایک لمس کہ جل جائیں سب خس و خاشاک
اسے وصال بھی کہتے ہیں خوش بیانی میں
فرحت احساس
ایک بوسے کے بھی نصیب نہ ہوں
ہونٹھ اتنے بھی اب غریب نہ ہوں
فرحت احساس