کبھی اس روشنی کی قید سے باہر بھی نکلو تم
ہجوم حسن نے سارا سراپا گھیر رکھا ہے
فرحت احساس
جو عشق چاہتا ہے وہ ہونا نہیں ہے آج
خود کو بحال کرنا ہے کھونا نہیں ہے آج
فرحت احساس
جسم کا کوزہ ہے اپنا اور نہ یہ دریائے جاں
جو لگا لے گا لبوں سے اس میں بھر جائیں گے ہم
فرحت احساس
جسے بھی پیاس بجھانی ہو میرے پاس رہے
کبھی بھی اپنے لبوں سے چھلکنے لگتا ہوں
فرحت احساس
جب اس کو دیکھتے رہنے سے تھکنے لگتا ہوں
تو اپنے خواب کی پلکیں جھپکنے لگتا ہوں
فرحت احساس
جان یہ سرکشئ جسم ترے بس کی نہیں
میری آغوش میں آ لا یہ مصیبت مجھے دے
فرحت احساس
عشق میں پینے کا پانی بس آنکھ کا پانی
کھانے میں بس پتھر کھائے جا سکتے تھے
فرحت احساس
علاج اپنا کراتے پھر رہے ہو جانے کس کس سے
محبت کر کے دیکھو نا محبت کیوں نہیں کرتے
فرحت احساس
آ مجھے چھو کے ہرا رنگ بچھا دے مجھ پر
میں بھی اک شاخ سی رکھتا ہوں شجر کرنے کو
فرحت احساس