اک ہوا آئی ہے دیوار میں در کرنے کو
کوئی دروازہ کھلا ہے مجھے گھر کرنے کو
دور صحرا میں کوئی زلف سی لہرائی ہے
کوئی بادل سا اڑا ہے مجھے تر کرنے کو
نظر آئی ہے کسی چاند کی پرچھائیں سی
شب ہستی میں مرے ساتھ سفر کرنے کو
آ مجھے چھو کے ہرا رنگ بچھا دے مجھ پر
میں بھی اک شاخ سی رکھتا ہوں شجر کرنے کو
اے صدف سن تجھے پھر یاد دلا دیتا ہوں
میں نے اک چیز تجھے دی تھی گہر کرنے کو
غزل
اک ہوا آئی ہے دیوار میں در کرنے کو
فرحت احساس