جسم کے پار وہ دیا سا ہے
درمیاں خاک کا اندھیرا ہے
کھل رہے ہیں گلاب ہونٹوں پر
اور خوابوں میں اس کا بوسہ ہے
میرے آغوش میں سما کر بھی
وہ بہت ہے تو استعارہ ہے
پھر سے ان جوئے شیر آنکھوں نے
بے ستوں جسم کو گرایا ہے
وہ تمہاری ہری بھری آنکھیں
ریت کو دیکھ لیں تو سبزہ ہے
بس ترا نام بول دیتا ہوں
اور ہونٹوں کے پاس دریا ہے
روشنی سے بھرا ہوا اک شخص
شہر بھر کے دیے جلاتا ہے
آنکھ بھر دیکھ لو یہ ویرانہ
آج کل میں یہ شہر ہوتا ہے
عشق اخبار کب کا بند ہوا
دل مرا آخری شمارہ ہے
غزل
جسم کے پار وہ دیا سا ہے
فرحت احساس