EN हिंदी
ہے شور ساحلوں پر سیلاب آ رہا ہے | شیح شیری
hai shor sahilon par sailab aa raha hai

غزل

ہے شور ساحلوں پر سیلاب آ رہا ہے

فرحت احساس

;

ہے شور ساحلوں پر سیلاب آ رہا ہے
آنکھوں کو غرق کرنے پھر خواب آ رہا ہے

بس ایک جسم دے کر رخصت کیا تھا اس نے
اور یہ کہا تھا باقی اسباب آ رہا ہے

خاک وصال کیا کیا صورت بدل رہی ہے
سورج گزر چکا ہے مہتاب آ رہا ہے

پانی کے آئنے میں کیا آنکھ پڑ گئی ہے
دریا میں کیسا کیسا گرداب آ رہا ہے

آنکھوں کی پیالیوں میں بارش مچی ہوئی ہے
صحرا میں کوئی منظر شاداب آ رہا ہے