ہے شور ساحلوں پر سیلاب آ رہا ہے
آنکھوں کو غرق کرنے پھر خواب آ رہا ہے
بس ایک جسم دے کر رخصت کیا تھا اس نے
اور یہ کہا تھا باقی اسباب آ رہا ہے
خاک وصال کیا کیا صورت بدل رہی ہے
سورج گزر چکا ہے مہتاب آ رہا ہے
پانی کے آئنے میں کیا آنکھ پڑ گئی ہے
دریا میں کیسا کیسا گرداب آ رہا ہے
آنکھوں کی پیالیوں میں بارش مچی ہوئی ہے
صحرا میں کوئی منظر شاداب آ رہا ہے
غزل
ہے شور ساحلوں پر سیلاب آ رہا ہے
فرحت احساس