وہ میری جاں کے صدف میں گہر سا رہتا ہے
میں اس کو توڑ نہ ڈالوں یہ ڈر سا رہتا ہے
وہ چہرہ ایک شفا خانہ ہے مری خاطر
وہ ہو تو جیسے کوئی چارہ گر سا رہتا ہے
میں اس نگاہ کے ہم راہ جب سے آیا ہوں
مجھے نہ جانے کہاں کا سفر سا رہتا ہے
بڑا وسیع ہے اس کے جمال کا منظر
وہ آئینے میں تو بس مختصر سا رہتا ہے
مری زمیں کو میسر ہے آسماں اس کا
کہیں بھی جاؤں مرے ساتھ گھر سا رہتا ہے
غزل
وہ میری جاں کے صدف میں گہر سا رہتا ہے
فرحت احساس