بس ایک لمس کہ جل جائیں سب خس و خاشاک
اسے وصال بھی کہتے ہیں خوش بیانی میں
فرحت احساس
آ مجھے چھو کے ہرا رنگ بچھا دے مجھ پر
میں بھی اک شاخ سی رکھتا ہوں شجر کرنے کو
فرحت احساس
بچا کے لائیں کسی بھی یتیم بچے کو
اور اس کے ہاتھ سے تخلیق کائنات کریں
فرحت احساس
بڑا وسیع ہے اس کے جمال کا منظر
وہ آئینے میں تو بس مختصر سا رہتا ہے
فرحت احساس
عورتیں کام پہ نکلی تھیں بدن گھر رکھ کر
جسم خالی جو نظر آئے تو مرد آ بیٹھے
فرحت احساس
اے صدف سن تجھے پھر یاد دلا دیتا ہوں
میں نے اک چیز تجھے دی تھی گہر کرنے کو
فرحت احساس
اے خدا میری رگوں میں دوڑ جا
شاخ دل پر اک ہری پتی نکال
فرحت احساس
اب دیکھتا ہوں میں تو وہ اسباب ہی نہیں
لگتا ہے راستے میں کہیں کھل گیا بدن
فرحت احساس
آنکھ بھر دیکھ لو یہ ویرانہ
آج کل میں یہ شہر ہوتا ہے
فرحت احساس