کرسئ دل پہ ترے جاتے ہی درد آ بیٹھے
جیسے آئینۂ بے کار پہ گرد آ بیٹھے
پہلی منزل پہ ہی ٹکرا کے گرے دنیا سے
پاؤں تڑوا کے تمام اہل نورد آ بیٹھے
دعوت دید جو اس قامت رنگیں کی ملی
بزم میں ہم بھی لیے یہ رخ زرد آ بیٹھے
عورتیں کام پہ نکلی تھیں بدن گھر رکھ کر
جسم خالی جو نظر آئے تو مرد آ بیٹھے
شہر اک سمت سے جنگل سا نظر آنے لگا
شہر کے دل میں بھی کیا دشت نورد آ بیٹھے
فرحتؔ احساس کی تعظیم میں اٹھا تھا سماج
اور وہ اس کی جگہ صورت فرد آ بیٹھے
غزل
کرسئ دل پہ ترے جاتے ہی درد آ بیٹھے
فرحت احساس