کون سی ایسی خوشی ہے جو ملی ہو ایک بار
اور تا عمر ہمیں جس نے اذیت نہیں دی
فرحت احساس
ترے ہونٹوں کے صحرا میں تری آنکھوں کے جنگل میں
جو اب تک پا چکا ہوں اس کو کھونا چاہتا ہوں میں
فرحت احساس
تمام شہر کی آنکھوں میں ریزہ ریزہ ہوں
کسی بھی آنکھ سے اٹھتا نہیں مکمل میں
فرحت احساس
تمام پیکر بدصورتی ہے مرد کی ذات
مجھے یقیں ہے خدا مرد ہو نہیں سکتا
فرحت احساس
تبھی وہیں مجھے اس کی ہنسی سنائی پڑی
میں اس کی یاد میں پلکیں بھگونے والا تھا
فرحت احساس
شستہ زباں شگفتہ بیاں ہونٹھ گلفشاں
ساری ہیں تجھ میں خوبیاں اردو زبان کی
فرحت احساس
سر سلامت لیے لوٹ آئے گلی سے اس کی
یار نے ہم کو کوئی ڈھنگ کی خدمت نہیں دی
فرحت احساس
سخت تکلیف اٹھائی ہے تجھے جاننے میں
اس لئے اب تجھے آرام سے پہچانتے ہیں
فرحت احساس
بن نہ پایا ہیر، رانجھا اب بھی رانجھا ہے بہت
دیکھ وارث شاہ تیری ہیر آدھی رہ گئی
فرحت احساس