آنکھ میں آنسو کا اور دل میں لہو کا کال ہے
ہے تمنا کا وہی جو زندگی کا حال ہے
اکبر حیدرآبادی
آنکھوں کو دیکھنے کا سلیقہ جب آ گیا
کتنے نقاب چہرۂ اسرار سے اٹھے
اکبر حیدرآبادی
بے سال و سن زمانوں میں پھیلے ہوئے ہیں ہم
بے رنگ و نسل نام میں تو بھی ہے میں بھی ہوں
اکبر حیدرآبادی
برے بھلے میں فرق ہے یہ جانتے ہیں سب مگر
ہے کون نیک کون بد نظر نظر کی بات ہے
اکبر حیدرآبادی
چراغ راہ گزر لاکھ تابناک سہی
جلا کے اپنا دیا روشنی مکان میں لا
اکبر حیدرآبادی
چھوڑ کے مال و دولت ساری دنیا میں اپنی
خالی ہاتھ گزر جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ
اکبر حیدرآبادی
دل دبا جاتا ہے کتنا آج غم کے بار سے
کیسی تنہائی ٹپکتی ہے در و دیوار سے
اکبر حیدرآبادی
ہر دکاں اپنی جگہ حیرت نظارہ ہے
فکر انساں کے سجائے ہوئے بازار تو دیکھ
اکبر حیدرآبادی
ہمت والے پل میں بدل دیتے ہیں دنیا کو
سوچنے والا دل تو بیٹھا سوچا کرتا ہے
اکبر حیدرآبادی