نگہ شوق سے حسن گل و گلزار تو دیکھ
آنکھیں کھل جائیں گی یہ منظر دلدار تو دیکھ
پیکر شاہد ہستی میں ہے اک آنچ نئی
لذت دید اٹھا شعلۂ رخسار تو دیکھ
شوخئ نقش کوئی حادثۂ وقت نہیں
معجزہ کاریٔ خون دل فن کار تو دیکھ
ہر دکاں اپنی جگہ حیرت نظارہ ہے
فکر انساں کے سجائے ہوئے بازار تو دیکھ
بن گئے گرد سفر قافلے آوازوں کے
آدم نو کی ذرا گرمئ رفتار تو دیکھ
منقلب ہو گیا پیمانۂ ہر پست و بلند
دیکھ کر اپنی طرف جانب کہسار تو دیکھ
نئے آہنگ سے اب نغمہ سرا ہے اکبرؔ
فکر کے ساتھ ذرا شوخئ گفتار تو دیکھ
غزل
نگہ شوق سے حسن گل و گلزار تو دیکھ
اکبر حیدرآبادی