EN हिंदी
اکبر حیدرآبادی شیاری | شیح شیری

اکبر حیدرآبادی شیر

21 شیر

لبوں پر تبسم تو آنکھوں میں آنسو تھی دھوپ ایک پل میں تو اک پل میں بارش
ہمیں یاد ہے باتوں باتوں میں ان کا ہنسانا رلانا رلانا ہنسانا

اکبر حیدرآبادی




آنکھ میں آنسو کا اور دل میں لہو کا کال ہے
ہے تمنا کا وہی جو زندگی کا حال ہے

اکبر حیدرآبادی




ہمت والے پل میں بدل دیتے ہیں دنیا کو
سوچنے والا دل تو بیٹھا سوچا کرتا ہے

اکبر حیدرآبادی




ہر دکاں اپنی جگہ حیرت نظارہ ہے
فکر انساں کے سجائے ہوئے بازار تو دیکھ

اکبر حیدرآبادی




دل دبا جاتا ہے کتنا آج غم کے بار سے
کیسی تنہائی ٹپکتی ہے در و دیوار سے

اکبر حیدرآبادی




چھوڑ کے مال و دولت ساری دنیا میں اپنی
خالی ہاتھ گزر جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ

اکبر حیدرآبادی




چراغ راہ گزر لاکھ تابناک سہی
جلا کے اپنا دیا روشنی مکان میں لا

اکبر حیدرآبادی




برے بھلے میں فرق ہے یہ جانتے ہیں سب مگر
ہے کون نیک کون بد نظر نظر کی بات ہے

اکبر حیدرآبادی




بے سال و سن زمانوں میں پھیلے ہوئے ہیں ہم
بے رنگ و نسل نام میں تو بھی ہے میں بھی ہوں

اکبر حیدرآبادی