جن پہ اجل طاری تھی ان کو زندہ کرتا ہے
سورج جل کر کتنے دلوں کو ٹھنڈا کرتا ہے
کتنے شہر اجڑ جاتے ہیں کتنے جل جاتے ہیں
اور چپ چاپ زمانہ سب کچھ دیکھا کرتا ہے
مجبوروں کی بات الگ ہے ان پر کیا الزام
جس کو نہیں کوئی مجبوری وہ کیا کرتا ہے
ہمت والے پل میں بدل دیتے ہیں دنیا کو
سوچنے والا دل تو بیٹھا سوچا کرتا ہے
جس بستی میں نفسا نفسی کا قانون چلے
اس بستی میں کون کسی کی پروا کرتا ہے
پیار بھری آواز کی لے میں مدھم لہجے میں
تنہائی میں کوئی مجھ سے بولا کرتا ہے
اس اک شمع فروزاں کے ہیں اور بھی پروانے
چاند اکیلا کب سورج کا حلقہ کرتا ہے
روح برہنہ نفس برہنہ ذات برہنہ جس کی
جسم پہ وہ کیا کیا پوشاکیں پہنا کرتا ہے
اشکوں کے سیلاب رواں کو اکبرؔ مت روکو
بہہ جائے تو بوجھ یہ دل کا ہلکا کرتا ہے
غزل
جن پہ اجل طاری تھی ان کو زندہ کرتا ہے
اکبر حیدرآبادی