اور کیا رہ گیا ہے ہونے کو
ایک آنسو نہیں ہے رونے کو
خواب اچھے رہیں گے ان دیکھے
خاک اچھی رہے گی سونے کو
تو کہیں بیٹھ اور حکم چلا
ہم جو ہیں تیرا بوجھ ڈھونے کو
چشم نم چار اشک اور ادھر
داغ اک رہ گیا ہے دھونے کو
بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی
کیا کریں اوڑھنے بچھونے کو
یہ مہ و سال چند باقی ہیں
اور کچھ بھی نہیں ہے کھونے کو
نارسائی کا رنج لائے ہیں
تیرے دل میں کہیں سمونے کو
آج کی رات جاگ لو یارو
وقت پھر حشر تک ہے سونے کو
یاد بھی تیری مٹ گئی دل سے
اور کیا رہ گیا ہے ہونے کو
غزل
اور کیا رہ گیا ہے ہونے کو
ابرار احمد