خیال لمس کا کار ثواب جیسا تھا
اثر صدا کا بھی موج شراب جیسا تھا
ورق نچے ہوئے سب لفظ و معنی گم سم تھے
یہ بات سچ ہے وہ چہرہ کتاب جیسا تھا
تمام رات وہ پہلو کو گرم کرتا رہا
کسی کی یاد کا نشہ شراب جیسا تھا
اداس ذروں کے ہمراہ کوئی پھرتا رہا
خموشیوں کا بیاباں سراب جیسا تھا
اک عمر کھوئی تو یہ راز مجھ پہ فاش ہوا
خیال مہر و وفا نقش آب جیسا تھا
غزل
خیال لمس کا کار ثواب جیسا تھا
ابرار اعظمی