اک روز ہوئے تھے کچھ اشارات خفی سے
عاشق ہیں ہم اس نرگس رعنا کے جبھی سے
کرنے کو ہیں دور آج تو تو یہ روگ ہی جی سے
اب رکھیں گے ہم پیار نہ تم سے نہ کسی سے
احباب سے رکھتا ہوں کچھ امید شرافت
رہتے ہیں خفا مجھ سے بہت لوگ اسی سے
کہتا ہوں اسے میں تو خصوصیت پنہاں
کچھ تم کو شکایت ہے کسی سے تو مجھی سے
اشعار نہیں ہیں یہ مری روح کی ہے پیاس
جاری ہوئے سرچشمے مری تشنہ لبی سے
آنسو کو مرے کھیل تماشا نہ سمجھنا
کٹ جاتا ہے پتھر اسی ہیرے کی کنی سے
یاد لب جاناں ہے چراغ دل رنجور
روشن ہے یہ گھر آج اسی لعل یمنی سے
افلاک کی محراب ہے آئی ہوئی انگڑائی
بے کیف کچھ آفاق کی اعضا شکنی سے
کچھ زیر لب الفاظ کھنکتے ہیں فضا میں
گونجی ہوئی ہے بزم تری کم سخنی سے
آج انجمن عشق نہیں انجمن عشق
کس درجہ کمی بزم میں ہے تیری کمی سے
اس وادئ ویراں میں ہے سر چشمۂ دل بھی
ہستی مری سیراب ہے آنکھوں کی نمی سے
خود مجھ کو بھی تا دیر خبر ہو نہیں پائی
آج آئی تری یاد اس آہستہ روی سے
وہ ڈھونڈھنے نکلی ہے تری نکہت گیسو
اک روز ملا تھا میں نسیم سحری سے
سب کچھ وہ دلا دے مجھے سب کچھ وہ بنا دے
اے دوست نہیں دور تری کم نگہی سے
میعاد دوام و ابد اک نیند ہے اس کی
ہم منتہیٔ جلوۂ جاناں ہیں ابھی سے
اک دل کے سوا پاس ہمارے نہیں کچھ بھی
جو کام ہو لے لیتے ہیں ہم لوگ اسی سے
معلوم ہوا اور ہے اک عالم اسرار
آئینۂ ہستی کی پریشاں نظری سے
اس سے تو کہیں بیٹھ رہے توڑ کے اب پاؤں
مل جائے نجات عشق کو اس دربدری سے
رہتا ہوں فراقؔ اس لئے وارفتہ کہ دنیا
کچھ ہوش میں آ جائے مری بے خبری سے
غزل
اک روز ہوئے تھے کچھ اشارات خفی سے
فراق گورکھپوری