نہ کیوں کر نذر دل ہوتا نہ کیوں کر دم مرا جاتا
اکیلا بھیجتا اس کو وہ خالی ہاتھ کیا جاتا
جنازہ پر بھی وہ آتے تو منہ کو ڈھانک کر آتے
ہماری جان لے کر بھی نہ انداز حیا جاتا
تمہاری یاد میرا دل یہ دونوں چلتے پرزے ہیں
جو ان میں سے کوئی مٹتا مجھے پہلے مٹا جاتا
تیری چتون کے بل کو ہم نے قاتل تاک رکھا تھا
کدھر مقتل میں بچ کر ہم سے یہ تیر قضا جاتا
مزا جب تھا قیامت تک نہ آتا ہوش بیخودؔ کو
پلائی تھی جو مے ساقی نے اتنی تو پلا جاتا
غزل
نہ کیوں کر نذر دل ہوتا نہ کیوں کر دم مرا جاتا
بیخود دہلوی