EN हिंदी
وفا شیاری | شیح شیری

وفا

80 شیر

نہ مدارات ہماری نہ عدو سے نفرت
نہ وفا ہی تمہیں آئی نہ جفا ہی آئی

بیخود بدایونی




وفا کا نام تو پیچھے لیا ہے
کہا تھا تم نے اس سے پیشتر کیا

بیخود دہلوی




امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا

چراغ حسن حسرت




جاؤ بھی کیا کرو گے مہر و وفا
بارہا آزما کے دیکھ لیا

داغؔ دہلوی




اڑ گئی یوں وفا زمانے سے
کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں

داغؔ دہلوی




وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا

داغؔ دہلوی




وفا پر دغا صلح میں دشمنی ہے
بھلائی کا ہرگز زمانہ نہیں ہے

دتا تریہ کیفی