تمہیں ہم چاہتے تو ہیں مگر کیا
محبت کیا محبت کا اثر کیا
وفا کا نام تو پیچھے لیا ہے
کہا تھا تم نے اس سے پیشتر کیا
ہزاروں بار بگڑے رات بھر میں
نبھے گی تم سے اپنی عمر بھر کیا
نظر ملتی نہیں اٹھتی نہیں آنکھ
کوئی پوچھے کہ ہے مد نظر کیا
شکایت سن کے وہ بیخودؔ سے بولے
تجھے اے بے خبر میری خبر کیا
غزل
تمہیں ہم چاہتے تو ہیں مگر کیا
بیخود دہلوی