EN हिंदी
تمہیں ہم چاہتے تو ہیں مگر کیا | شیح شیری
tumhein hum chahte to hain magar kya

غزل

تمہیں ہم چاہتے تو ہیں مگر کیا

بیخود دہلوی

;

تمہیں ہم چاہتے تو ہیں مگر کیا
محبت کیا محبت کا اثر کیا

وفا کا نام تو پیچھے لیا ہے
کہا تھا تم نے اس سے پیشتر کیا

ہزاروں بار بگڑے رات بھر میں
نبھے گی تم سے اپنی عمر بھر کیا

نظر ملتی نہیں اٹھتی نہیں آنکھ
کوئی پوچھے کہ ہے مد نظر کیا

شکایت سن کے وہ بیخودؔ سے بولے
تجھے اے بے خبر میری خبر کیا