کوئی دل لگی دل لگانا نہیں ہے
قیامت ہے یہ دل کا آنا نہیں ہے
منائیں انہیں وصل میں کس طرح ہم
یہ روٹھے کا کوئی منانا نہیں ہے
ہے منظور انہیں امتحاں شوق دل کا
نزاکت کا خالی بہانہ نہیں ہے
وفا پر دغا صلح میں دشمنی ہے
بھلائی کا ہرگز زمانہ نہیں ہے
شب غم بھی ہو جائے گی اک دن آخر
کبھی اک روش پر زمانا نہیں ہے
ہے کوئے بتاں بس گھر اس کا ہی کیفیؔ
زمانے میں جس کو ٹھکانا نہیں ہے
غزل
کوئی دل لگی دل لگانا نہیں ہے
دتا تریہ کیفی