EN हिंदी
کوئی دل لگی دل لگانا نہیں ہے | شیح شیری
koi dil-lagi dil lagana nahin hai

غزل

کوئی دل لگی دل لگانا نہیں ہے

دتا تریہ کیفی

;

کوئی دل لگی دل لگانا نہیں ہے
قیامت ہے یہ دل کا آنا نہیں ہے

منائیں انہیں وصل میں کس طرح ہم
یہ روٹھے کا کوئی منانا نہیں ہے

ہے منظور انہیں امتحاں شوق دل کا
نزاکت کا خالی بہانہ نہیں ہے

وفا پر دغا صلح میں دشمنی ہے
بھلائی کا ہرگز زمانہ نہیں ہے

شب غم بھی ہو جائے گی اک دن آخر
کبھی اک روش پر زمانا نہیں ہے

ہے کوئے بتاں بس گھر اس کا ہی کیفیؔ
زمانے میں جس کو ٹھکانا نہیں ہے