EN हिंदी
وفا شیاری | شیح شیری

وفا

80 شیر

کبھی کی تھی جو اب وفا کیجئے گا
مجھے پوچھ کر آپ کیا کیجئے گا

حسرتؔ موہانی




اب دلوں میں کوئی گنجائش نہیں ملتی حیاتؔ
بس کتابوں میں لکھا حرف وفا رہ جائے گا

حیات لکھنوی




تجھ سے وفا نہ کی تو کسی سے وفا نہ کی
کس طرح انتقام لیا اپنے آپ سے

حمایت علی شاعرؔ




دشت وفا میں جل کے نہ رہ جائیں اپنے دل
وہ دھوپ ہے کہ رنگ ہیں کالے پڑے ہوئے

ہوش ترمذی




اب تو کر ڈالیے وفا اس کو
وہ جو وعدہ ادھار رہتا ہے

ابن مفتی




بس ایک بار ہی توڑا جہاں نے عہد وفا
کسی سے ہم نے پھر عہد وفا کیا ہی نہیں

ابراہیم اشکؔ




کیوں پشیماں ہو اگر وعدہ وفا ہو نہ سکا
کہیں وعدے بھی نبھانے کے لئے ہوتے ہیں

عبرت مچھلی شہری