EN हिंदी
تنہائی شیاری | شیح شیری

تنہائی

66 شیر

تنہائیوں کو سونپ کے تاریکیوں کا زہر
راتوں کو بھاگ آئے ہم اپنے مکان سے

کیف احمد صدیقی




صحرا میں آ نکلے تو معلوم ہوا
تنہائی کو وسعت کم پڑ جاتی ہے

کاشف حسین غائر




زمیں آباد ہوتی جا رہی ہے
کہاں جائے گی تنہائی ہماری

کاشف حسین غائر




کوئی بھی یقیں دل کو شادؔ کر نہیں سکتا
روح میں اتر جائے جب گماں کی تنہائی

خوشبیر سنگھ شادؔ




وہ نہیں ہے نہ سہی ترک تمنا نہ کرو
دل اکیلا ہے اسے اور اکیلا نہ کرو

محمود ایاز




کتنے چہرے کتنی شکلیں پھر بھی تنہائی وہی
کون لے آیا مجھے ان آئینوں کے درمیاں

محمود شام




غم و نشاط کی ہر رہ گزر میں تنہا ہوں
مجھے خبر ہے میں اپنے سفر میں تنہا ہوں

مخمور سعیدی