EN हिंदी
اچانک کس کو یاد آئی ہماری | شیح شیری
achanak kis ko yaad aai hamari

غزل

اچانک کس کو یاد آئی ہماری

کاشف حسین غائر

;

اچانک کس کو یاد آئی ہماری
کہانی کس نے دہرائی ہماری

چلو آیا نہ آیا جانے والا
صدا تو لوٹ کر آئی ہماری

گزشتہ شب ہوا سے گفتگو کی
چراغوں نے قسم کھائی ہماری

نظر آیا ہے وہ بیمار اپنا
کھلی جس پر مسیحائی ہماری

تری خوشبو سے ہے آباد اب تک
یہ باغ دل یہ انگنائی ہماری

زمیں آباد ہوتی جا رہی ہے
کہاں جائے گی تنہائی ہماری