نکلی جو آج تک نہ کسی کی زبان سے
ٹکرا رہی ہے بات وہی میرے کان سے
سوتا رہا میں خوف کی چادر لپیٹ کر
آسیب چیختے رہے خالی مکان سے
اکثر میں ایک زہر بجھے تیر کی طرح
نکلا ہوں حادثات کی ترچھی کمان سے
پھیلا ہوا ہے حد نظر تک سکوت مرگ
آواز دے رہا ہے کوئی آسمان سے
تنہائیوں کو سونپ کے تاریکیوں کا زہر
راتوں کو بھاگ آئے ہم اپنے مکان سے
ممکن ہے خوب کھل کے ہو گفت و شنید آج
وہ بھی خفا ہے ہم بھی ہیں کچھ بد گمان سے
اے کیفؔ جن کو بغض نئی شاعری سے ہے
وہ بھی ترے کلام کو پڑھتے ہیں دھیان سے
غزل
نکلی جو آج تک نہ کسی کی زبان سے
کیف احمد صدیقی