EN हिंदी
تنہائی شیاری | شیح شیری

تنہائی

66 شیر

ان کی حسرت بھی نہیں میں بھی نہیں دل بھی نہیں
اب تو بیخودؔ ہے یہ عالم مری تنہائی کا

بیخود بدایونی




ہجر و وصال چراغ ہیں دونوں تنہائی کے طاقوں میں
اکثر دونوں گل رہتے ہیں اور جلا کرتا ہوں میں

فرحت احساس




کسی حالت میں بھی تنہا نہیں ہونے دیتی
ہے یہی ایک خرابی مری تنہائی کی

فرحت احساس




پکارا جب مجھے تنہائی نے تو یاد آیا
کہ اپنے ساتھ بہت مختصر رہا ہوں میں

فارغ بخاری




مرے وجود کو پرچھائیوں نے توڑ دیا
میں اک حصار تھا تنہائیوں نے توڑ دیا

فاضل جمیلی




اب تو ان کی یاد بھی آتی نہیں
کتنی تنہا ہو گئیں تنہائیاں

nowadays even her thoughts do not intrude
see how forlorn and lonely is my solitude

فراق گورکھپوری




کہاں کا وصل تنہائی نے شاید بھیس بدلا ہے
ترے دم بھر کے مل جانے کو ہم بھی کیا سمجھتے ہیں

فراق گورکھپوری