EN हिंदी
گھر گیا ہوں بے طرح میں خواہشوں کے درمیاں | شیح شیری
ghir gaya hun be-tarah main KHwahishon ke darmiyan

غزل

گھر گیا ہوں بے طرح میں خواہشوں کے درمیاں

محمود شام

;

گھر گیا ہوں بے طرح میں خواہشوں کے درمیاں
جسم کے ریزے اڑاتی آندھیوں کے درمیاں

کتنے چہرے کتنی شکلیں پھر بھی تنہائی وہی
کون لے آیا مجھے ان آئینوں کے درمیاں

ہم کہاں یارو کہاں وہ موجۂ باد نسیم
وقت کی پہنائیاں حائل دلوں کے درمیاں

دل پہ گزری جو وہ گزری شہر کیوں ویراں ہوئے
ایک دہشت سی ہے پھیلی راستوں کے درمیاں

مدعا پنہاں پس الفاظ ہے جو پڑھ سکو
کچھ نہیں پاؤ گے تم ان سرخیوں کے درمیاں

جیسے خوشبو شہر میں صحرا میں جیسے چاندنی
یوں بکھر جاتا ہوں میں تنہائیوں کے درمیاں

جس کی خاطر شعر لکھتے ہو کبھی پڑھتی بھی ہے
کب تلک الجھے رہوگے قافیوں کے درمیاں

شامؔ جی بکھرے کبھی اس دل کے آنگن میں مہک
زندگی گزرے گی کب تک آہٹوں کے درمیاں