EN हिंदी
اک دن دکھ کی شدت کم پڑ جاتی ہے | شیح شیری
ek din dukh ki shiddat kam paD jati hai

غزل

اک دن دکھ کی شدت کم پڑ جاتی ہے

کاشف حسین غائر

;

اک دن دکھ کی شدت کم پڑ جاتی ہے
کیسی بھی ہو وحشت کم پڑ جاتی ہے

صحرا میں آ نکلے تو معلوم ہوا
تنہائی کو وسعت کم پڑ جاتی ہے

اپنے آپ سے ملتا ہوں میں فرصت میں
اور پھر مجھ کو فرصت کم پڑ جاتی ہے

کچھ ایسی بھی دل کی باتیں ہوتی ہیں
جن باتوں کو خلوت کم پڑ جاتی ہے

اک دن یوں ہوتا ہے خوش رہتے رہتے
خوش رہنے کی عادت کم پڑ جاتی ہے

زندہ رہنے کا نشہ ہی ایسا ہے
کتنی بھی ہو مدت کم پڑ جاتی ہے

کاشف غائرؔ دل کا قرض چکانے میں
دنیا بھر کی دولت کم پڑ جاتی ہے