اک دن دکھ کی شدت کم پڑ جاتی ہے
کیسی بھی ہو وحشت کم پڑ جاتی ہے
صحرا میں آ نکلے تو معلوم ہوا
تنہائی کو وسعت کم پڑ جاتی ہے
اپنے آپ سے ملتا ہوں میں فرصت میں
اور پھر مجھ کو فرصت کم پڑ جاتی ہے
کچھ ایسی بھی دل کی باتیں ہوتی ہیں
جن باتوں کو خلوت کم پڑ جاتی ہے
اک دن یوں ہوتا ہے خوش رہتے رہتے
خوش رہنے کی عادت کم پڑ جاتی ہے
زندہ رہنے کا نشہ ہی ایسا ہے
کتنی بھی ہو مدت کم پڑ جاتی ہے
کاشف غائرؔ دل کا قرض چکانے میں
دنیا بھر کی دولت کم پڑ جاتی ہے
غزل
اک دن دکھ کی شدت کم پڑ جاتی ہے
کاشف حسین غائر