EN हिंदी
ایک تو قیامت ہے اس مکاں کی تنہائی | شیح شیری
ek to qayamat hai is makan ki tanhai

غزل

ایک تو قیامت ہے اس مکاں کی تنہائی

خوشبیر سنگھ شادؔ

;

ایک تو قیامت ہے اس مکاں کی تنہائی
اس پہ مار ڈالے گی مجھ کو جاں کی تنہائی

تم نے تو ستاروں کو دور ہی سے دیکھا ہے
تم سمجھ نہ پاؤگے آسماں کی تنہائی

وہ ادھر اکیلا تھا ہم ادھر اکیلے تھے
راستے میں حائل تھی درمیاں کی تنہائی

پھر وہی چراغوں کا رفتہ رفتہ بجھ جانا
پھر وہی سکوت شب پھر وہ جاں کی تنہائی

دشت میں بھی کچھ دن تک وحشتیں تو ہوتی ہیں
راس آنے لگتی ہے پھر وہاں کی تنہائی

کوئی بھی یقیں دل کو شادؔ کر نہیں سکتا
روح میں اتر جائے جب گماں کی تنہائی