ایک تو قیامت ہے اس مکاں کی تنہائی
اس پہ مار ڈالے گی مجھ کو جاں کی تنہائی
تم نے تو ستاروں کو دور ہی سے دیکھا ہے
تم سمجھ نہ پاؤگے آسماں کی تنہائی
وہ ادھر اکیلا تھا ہم ادھر اکیلے تھے
راستے میں حائل تھی درمیاں کی تنہائی
پھر وہی چراغوں کا رفتہ رفتہ بجھ جانا
پھر وہی سکوت شب پھر وہ جاں کی تنہائی
دشت میں بھی کچھ دن تک وحشتیں تو ہوتی ہیں
راس آنے لگتی ہے پھر وہاں کی تنہائی
کوئی بھی یقیں دل کو شادؔ کر نہیں سکتا
روح میں اتر جائے جب گماں کی تنہائی
غزل
ایک تو قیامت ہے اس مکاں کی تنہائی
خوشبیر سنگھ شادؔ