کسی تخلیق کے پیکر میں آنا چاہتا ہوں
تصور ہوں کہیں اپنا ٹھکانہ چاہتا ہوں
مجھے تحسین کی جب کوئی خواہش ہی نہیں ہے
تو اپنے شعر کیوں تجھ کو سنانا چاہتا ہوں
مجھے تجھ سے شکایت بھی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے
تجھے اے زندگی میں والہانہ چاہتا ہوں
اسی خاطر تو یہ صنف سخن میں نے چنی ہے
کہ جو محسوس کرتا ہوں بتانا چاہتا ہوں
مرے ان خشک ہونٹوں کو ذرا نمناک کر دے
میں اپنی پیاس کی شدت چھپانا چاہتا ہوں
تبھی تو شادؔ پلکوں پر سجا رکھا ہے ان کو
میں اپنے خواب دنیا کو دکھانا چاہتا ہوں
غزل
کسی تخلیق کے پیکر میں آنا چاہتا ہوں
خوشبیر سنگھ شادؔ