EN हिंदी
کسی تخلیق کے پیکر میں آنا چاہتا ہوں | شیح شیری
kisi taKHliq ke paikar mein aana chahta hun

غزل

کسی تخلیق کے پیکر میں آنا چاہتا ہوں

خوشبیر سنگھ شادؔ

;

کسی تخلیق کے پیکر میں آنا چاہتا ہوں
تصور ہوں کہیں اپنا ٹھکانہ چاہتا ہوں

مجھے تحسین کی جب کوئی خواہش ہی نہیں ہے
تو اپنے شعر کیوں تجھ کو سنانا چاہتا ہوں

مجھے تجھ سے شکایت بھی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے
تجھے اے زندگی میں والہانہ چاہتا ہوں

اسی خاطر تو یہ صنف سخن میں نے چنی ہے
کہ جو محسوس کرتا ہوں بتانا چاہتا ہوں

مرے ان خشک ہونٹوں کو ذرا نمناک کر دے
میں اپنی پیاس کی شدت چھپانا چاہتا ہوں

تبھی تو شادؔ پلکوں پر سجا رکھا ہے ان کو
میں اپنے خواب دنیا کو دکھانا چاہتا ہوں