چاہی تھی دل نے تجھ سے وفا کم بہت ہی کم
شاید اسی لیے ہے گلا کم بہت ہی کم
کیا حسن تھا کہ آنکھ لگی سایہ ہو گیا
وہ سادگی کی مار، حیا کم بہت ہی کم
تھے دوسرے بھی تیری محبت کے آس پاس
دل کو مگر سکون ملا کم بہت ہی کم
جلتے سنا چراغ سے دامن ہزار بار
دامن سے کب چراغ جلا کم بہت ہی کم
اب روح کانپتی ہے اجل ہے قریب تر
اے ہم نصیب ناز و ادا کم بہت ہی کم
یوں مت کہو خزاںؔ کہ بہت دیر ہو گئی
ہیں آج کل وہ تم سے خفا کم بہت ہی کم
غزل
چاہی تھی دل نے تجھ سے وفا کم بہت ہی کم
محبوب خزاں