EN हिंदी
چاہی تھی دل نے تجھ سے وفا کم بہت ہی کم | شیح شیری
chahi thi dil ne tujhse wafa kam bahut hi kam

غزل

چاہی تھی دل نے تجھ سے وفا کم بہت ہی کم

محبوب خزاں

;

چاہی تھی دل نے تجھ سے وفا کم بہت ہی کم
شاید اسی لیے ہے گلا کم بہت ہی کم

کیا حسن تھا کہ آنکھ لگی سایہ ہو گیا
وہ سادگی کی مار، حیا کم بہت ہی کم

تھے دوسرے بھی تیری محبت کے آس پاس
دل کو مگر سکون ملا کم بہت ہی کم

جلتے سنا چراغ سے دامن ہزار بار
دامن سے کب چراغ جلا کم بہت ہی کم

اب روح کانپتی ہے اجل ہے قریب تر
اے ہم نصیب ناز و ادا کم بہت ہی کم

یوں مت کہو خزاںؔ کہ بہت دیر ہو گئی
ہیں آج کل وہ تم سے خفا کم بہت ہی کم