ڈوبا ہوا اٹھوں دم محشر شراب میں
دے دیں کفن جو یار ڈبو کر شراب میں
مانے نہ مانے کوئی پہ اتنا کہیں گے ہم
ہے ذوق بے خودی تو مقرر شراب میں
مانیں جو میری بات مریدان بے ریا
دیں شیخ کو کفن تو ڈبو کر شراب میں
کس کے خرام ناز سے ملتی ہے موج جام
برپا ہے ایک فتنۂ محشر شراب میں
وہ رند بادہ کش ہوں کہ مائلؔ پس فنا
جلوے نے ترے قہر اٹھایا نقاب میں
غزل
ڈوبا ہوا اٹھوں دم محشر شراب میں
مرزا مائل دہلوی