فریبوں سے نہ بہلے گا دل آشفتہ کام اپنا
بظاہر مسکرا کر دیکھنے والے سلام اپنا
کسی کی بزم کے حالات نے سمجھا دیا مجھ کو
کہ جب ساقی نہیں اپنا تو مے اپنی نہ جام اپنا
اگر اپنے دل بیتاب کو سمجھا لیا میں نے
تو یہ کافر نگاہیں کر سکیں گی انتظام اپنا
مکمل کر گیا جل کر حیات غم کو پروانہ
اور اک ہم تھے کہ افسانہ بھی چھوڑا ناتمام اپنا
جہان عشق میں ایسے مقاموں سے بھی گزرا ہوں
کہ بعض اوقات خود کرنا پڑا ہے احترام اپنا
میں دیوانہ سہی لیکن وہ خوش قسمت ہوں اے محشرؔ
کہ دنیا کی زباں پر آ گیا ہے آج نام اپنا
غزل
فریبوں سے نہ بہلے گا دل آشفتہ کام اپنا
محشر عنایتی