جاں بخش لب کے عشق میں ایذا اٹھائیے
بیمار ہو کے ناز مسیحا اٹھائیے
قدسی نگاہ لطف کے امیدوار ہیں
آنکھیں تو سوئے عالم بالا اٹھائیے
اب کے بہار میں جو ہمیں لے چلے جنوں
چن چن کے داغ لالۂ صحرا اٹھائیے
خامہ سے کام لیجئے ہنگام فکر شعر
میدان کارزار میں گھوڑا اٹھائیے
دکھلائے حسن یار کا جلوہ ہمیں جو عشق
کس کس طرح سے لطف تماشا اٹھائیے
تجھ سا حسیں ہو یار تو کیوں کر نہ اس کے پھر
ناز بجا و غمزۂ بے جا اٹھائیے
مفلس ہوں لاکھ پر یہی دل کو بندھی ہے دھن
یوسف کو قرض لے کے تقاضا اٹھائیے
فصل بہار آئی پیو صوفیو شراب
بس ہو چکی نماز مصلیٰ اٹھائیے
جام شراب ناب ہے ساقی لیے کھڑا
گردن تو مثل گردن مینا اٹھائیے
آواز کو سنا کے کئے کان مستفیض
رحم آنکھوں پر بھی کیجئے پردا اٹھائیے
جوش جنوں میں دیکھیے پیچھے نہ مڑ کے پھر
منہ جس طرف کو صورت دریا اٹھائیے
شمشیر زن ہو یار بہادر جوان ہو
آتشؔ جہاد عشق پہ بیڑا اٹھائیے
غزل
جاں بخش لب کے عشق میں ایذا اٹھائیے
حیدر علی آتش