EN हिंदी
زخموں کے نئے پھول کھلانے کے لئے آ | شیح شیری
zaKHmon ke nae phul khilane ke liye aa

غزل

زخموں کے نئے پھول کھلانے کے لئے آ

کلیم عاجز

;

زخموں کے نئے پھول کھلانے کے لئے آ
پھر موسم گل یاد دلانے کے لئے آ

مستی لئے آنکھوں میں بکھیرے ہوئے زلفیں
آ پھر مجھے دیوانہ بنانے کے لئے آ

اب لطف اسی میں ہے مزا ہے تو اسی میں
آ اے مرے محبوب ستانے کے لئے آ

آ رکھ دہن زخم پہ پھر انگلیاں اپنی
دل بانسری تیری ہے بجانے کے لئے آ

ہاں کچھ بھی تو دیرینہ محبت کا بھرم رکھ
دل سے نہ آ دنیا کو دکھانے کے لئے آ

مانا کہ مرے گھر سے عداوت ہی تجھے ہے
رہنے کو نہ آ آگ لگانے کے لئے آ

پیارے تری صورت سے بھی اچھی ہے جو تصویر
میں نے تجھے رکھی ہے دکھانے کے لئے، آ

آشفتہ کہے ہے کوئی دیوانہ کہے ہے
میں کون ہوں دنیا کو بتانے کے لئے آ

کچھ روز سے ہم شہر میں رسوا نہ ہوئے ہیں
آ پھر کوئی الزام لگانے کے لئے آ

اب کے جو وہ آ جائے تو عاجزؔ اسے لے کر
محفل میں غزل اپنی سنانے کے لئے آ