EN हिंदी
تلخیاں اس میں بہت کچھ ہیں مزا کچھ بھی نہیں | شیح شیری
talKHiyan isMein bahut kuchh hain maza kuchh bhi nahin

غزل

تلخیاں اس میں بہت کچھ ہیں مزا کچھ بھی نہیں

کلیم عاجز

;

تلخیاں اس میں بہت کچھ ہیں مزا کچھ بھی نہیں
زندگی درد محبت کے سوا کچھ بھی نہیں

شمع خاموش بھی رہتے ہوئے خاموش کہاں
اس طرح کہہ دیا سب کچھ کہ کہا کچھ بھی نہیں

ہم گدایان محبت کا یہی سب کچھ ہے
گرچہ دنیا یہی کہتی ہے وفا کچھ بھی نہیں

یہ نیا طرز کرم ہے ترا اے فصل بہار
لے لیا پاس میں جو کچھ تھا دیا کچھ بھی نہیں

ہم کو معلوم نہ تھا پہلے یہ آئین جہاں
اس کو دیتے ہیں سزا جس کی خطا کچھ بھی نہیں

وہی آہیں وہی آنسو کے دو قطرے عاجزؔ
کیا تری شاعری میں ان کے سوا کچھ بھی نہیں