آنکھوں کے بند باب لیے بھاگتے رہے
بڑھتے ہوئے عتاب لیے بھاگتے رہے
سونے سے جاگنے کا تعلق نہ تھا کوئی
سڑکوں پہ اپنے خواب لیے بھاگتے رہے
فرصت نہیں تھی اتنی کہ پیروں سے باندھتے
ہم ہاتھ میں رکاب لیے بھاگتے رہے
تیزی سے بیتتے ہوئے لمحوں کے ساتھ ساتھ
جینے کا اک عذاب لیے بھاگتے رہے
کچھ زندگی کی وجہ سمجھ میں نہ آ سکی
سوچوں کا اک نصاب لیے بھاگتے رہے
غزل
آنکھوں کے بند باب لیے بھاگتے رہے
آشفتہ چنگیزی