ستارے چاہتے ہیں ماہتاب مانگتے ہیں
مرے دریچے نئی آب و تاب مانگتے ہیں
وہ خوش خرام جب اس راہ سے گزرتا ہے
تو سنگ و خشت بھی اذن خطاب مانگتے ہیں
کوئی ہوا سے یہ کہہ دے ذرا ٹھہر جائے
کہ رقص کرنے کی مہلت حباب مانگتے ہیں
عجیب طرفہ تماشا ہے میرے عہد کے لوگ
سوال کرنے سے پہلے جواب مانگتے ہیں
طلب کریں تو یہ آنکھیں بھی ان کو دے دوں میں
مگر یہ لوگ ان آنکھوں کے خواب مانگتے ہیں
یہ احتساب عجب ہے کہ محتسب ہی نہیں
رکاب تھامنے والے حساب مانگتے ہیں
ستون و بام کی دیوار و در کی شرط نہیں
بس ایک گھر ترے خانہ خراب مانگتے ہیں
غزل
ستارے چاہتے ہیں ماہتاب مانگتے ہیں
عباس رضوی