کسے بتاتے کہ منظر نگاہ میں کیا تھا
ہر ایک رنگ میں اپنا ہی بس تماشا تھا
ہم آج تک تو کوئی امتیاز کر نہ سکے
یہاں تو جو بھی ملا ہے وہ تیرے جیسا تھا
عجیب خواب تھا تعبیر کیا ہوئی اس کی
کہ ایک دریا ہواؤں کے رخ پہ بہتا تھا
نہ کوئی ظلم نہ ہلچل نہ مسئلہ کوئی
ابھی کی بات ہے میں حادثے اگاتا تھا
ہر ایک شخص نے اپنے سے منسلک سمجھی
کوئی کہانی کسی کی کسی سے کہتا تھا
ہمارا نام تھا آشفتہ حال لوگوں میں
خزاں پسند طبیعت کا اپنی چرچا تھا
غزل
کسے بتاتے کہ منظر نگاہ میں کیا تھا
آشفتہ چنگیزی