EN हिंदी
بادباں کھولے گی اور بند قبا لے جائے گی | شیح شیری
baadban kholegi aur band-e-qaba le jaegi

غزل

بادباں کھولے گی اور بند قبا لے جائے گی

آشفتہ چنگیزی

;

بادباں کھولے گی اور بند قبا لے جائے گی
رات پھر آئے گی پھر سب کچھ بہا لے جائے گی

خواب جتنے دیکھنے ہیں آج سارے دیکھ لیں
کیا بھروسہ کل کہاں پاگل ہوا لے جائے گی

یہ اندھیرے ہیں غنیمت کوئی رستہ ڈھونڈ لو
صبح کی پہلی کرن آنکھیں اٹھا لے جائے گی

ہوش مندوں سے بھرے ہیں شہر اور جنگل سبھی
ساتھ کس کس کو بھلا کالی گھٹا لے جائے گی

جاگتے منظر چھتیں دالان آنگن کھڑکیاں
اب کے پھیرے میں ہوا یہ بھی اڑا لے جائے گی

ایک اک کر کے سبھی ساتھی پرانے کھو گئے
جو بچا ہے وہ نگاہ سرمہ سا لے جائے گی

جاتے جاتے دیکھ لینا گردش لیل و نہار
زندگی سے بانکپن لطف خطا لے جائے گی