کچھ کام نہیں ہے یہاں وحشت کے برابر
سو تم ہمیں غم دو کوئی ہمت کے برابر
کب لگتا ہے جی راہ سہولت میں ہمیشہ
اور ملتا ہے کب رنج ضرورت کے برابر
آسائش و آرام ہو یا جاہ و حشم ہو
کیا چیز یہاں پر ہے محبت کے برابر
گنجائش افسوس نکل آتی ہے ہر روز
مصروف نہیں رہتا ہوں فرصت کے برابر
بھر لائے ہیں ہم آنکھ میں رکھنے کو مقابل
اک خواب تمنا تری غفلت کے برابر
رکھ دیں گے ترے پاؤں میں ہم موج میں آ کر
دنیا ہے کہاں جان کی قیمت کے برابر
پھر کشمکش سود و زیاں کار زیاں ہے
جب جیت بھی ٹھہری ہے ہزیمت کے برابر
جینے میں جو احساس تفاخر ہے کہاں ہے
جیتے چلے جانے کی ندامت کے برابر
غزل
کچھ کام نہیں ہے یہاں وحشت کے برابر
ابرار احمد