EN हिंदी
غام شیاری | شیح شیری

غام

108 شیر

خرد ڈھونڈھتی رہ گئی وجہ غم
مزا غم کا درد آشنا لے گیا

کالی داس گپتا رضا




غم ہے نہ اب خوشی ہے نہ امید ہے نہ یاس
سب سے نجات پائے زمانے گزر گئے

خمارؔ بارہ بنکوی




دولت غم بھی خس و خاک زمانہ میں گئی
تم گئے ہو تو مہ و سال کہاں ٹھہرے ہیں

محمود ایاز




ان کا غم ان کا تصور ان کی یاد
کٹ رہی ہے زندگی آرام سے

محشر عنایتی




اب کارگہ دہر میں لگتا ہے بہت دل
اے دوست کہیں یہ بھی ترا غم تو نہیں ہے

مجروح سلطانپوری




غم میں کچھ غم کا مشغلا کیجے
درد کی درد سے دوا کیجے

منظر لکھنوی




ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی
کس نے توڑا دل ہمارا یہ کہانی پھر سہی

مسرور انور