اشک غم دیدۂ پر نم سے سنبھالے نہ گئے
یہ وہ بچے ہیں جو ماں باپ سے پالے نہ گئے
میر انیس
کیا کہوں کس طرح سے جیتا ہوں
غم کو کھاتا ہوں آنسو پیتا ہوں
میر اثر
یہ غم کدہ ہے اس میں مبارکؔ خوشی کہاں
غم کو خوشی بنا کوئی پہلو نکال کے
مبارک عظیم آبادی
مصیبت اور لمبی زندگانی
بزرگوں کی دعا نے مار ڈالا
all these worldly troubles and longevity
blessings of the elders is the death of me
مضطر خیرآبادی
غم ہے آوارہ اکیلے میں بھٹک جاتا ہے
جس جگہ رہئے وہاں ملتے ملاتے رہئے
ندا فاضلی
سکون دے نہ سکیں راحتیں زمانے کی
جو نیند آئی ترے غم کی چھاؤں میں آئی
پیام فتحپوری
غم کی توہین نہ کر غم کی شکایت کر کے
دل رہے یا نہ رہے عظمت غم رہنے دے
belittle not these sorrows, of them do not complain
their glory be preserved, tho heart may not remain
قمر مرادآبادی