EN हिंदी
غام شیاری | شیح شیری

غام

108 شیر

اشک غم دیدۂ پر نم سے سنبھالے نہ گئے
یہ وہ بچے ہیں جو ماں باپ سے پالے نہ گئے

میر انیس




کیا کہوں کس طرح سے جیتا ہوں
غم کو کھاتا ہوں آنسو پیتا ہوں

میر اثر




یہ غم کدہ ہے اس میں مبارکؔ خوشی کہاں
غم کو خوشی بنا کوئی پہلو نکال کے

مبارک عظیم آبادی




مصیبت اور لمبی زندگانی
بزرگوں کی دعا نے مار ڈالا

all these worldly troubles and longevity
blessings of the elders is the death of me

مضطر خیرآبادی




غم ہے آوارہ اکیلے میں بھٹک جاتا ہے
جس جگہ رہئے وہاں ملتے ملاتے رہئے

ندا فاضلی




سکون دے نہ سکیں راحتیں زمانے کی
جو نیند آئی ترے غم کی چھاؤں میں آئی

پیام فتحپوری




غم کی توہین نہ کر غم کی شکایت کر کے
دل رہے یا نہ رہے عظمت غم رہنے دے

belittle not these sorrows, of them do not complain
their glory be preserved, tho heart may not remain

قمر مرادآبادی